(پریشان اوربدحال گھرانوں کے الجھے خطوط اور سلجھے جواب)
نامعلوم خوف کا احساس
سوال:۔ میری عمر ۶۲ سال ہے۔ فوج میں ملازم ہوں۔ دل میں ہر وقت یہی خوف رہتا ہے کہ جب بھی کہیں باہر گیاضرور کسی نہ کسی خوفناک حادثے کا شکار ہو جاﺅں گا۔ تصور میں اپنے آپ کو مختلف حادثات سے دو چار ہوتے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور ذہن مفلوج ہو جاتا ہے۔ اس خوف کا کوئی سبب سمجھ میں نہیں آتا۔ زیادہ سے زیادہ مصروف رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ تاکہ اس طرف متوجہ ہونے کا موقع ہی نہ ملے مگر ابھی تک اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ کام ختم ہو جاتاہے۔ تو نامعلوم خوف کا احساس پھر آن گھیرتا ہے اب تو میں اپنے آپ کو بالکل غیر محفوظ سمجھنے لگا ہوں۔ کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟
(ایم۔ اے۔ راہی کراچی)
جواب:۔ ایسا خوف جو ہر وقت مسلط رہے اوربظاہر جس کا کوئی سبب نہ ہو بالعموم بچپن کی زندگی سے وابستہ ہوتا ہے۔ جس بچے کا بچپن خوشگوار نہ رہا ہو جو کسی وجہ سے والدین کی محبت اور شفقت سے محروم رہ چکا ہو یا کسی سبب سے تنہا اور غیر محفوظ محسوس کرتا رہا ہو وہ اس قسم کے انجانے خوف کا شکار ہو جاتا ہے اپنے بچپن کے تمام حالات کو کریدنے کی کوشش کیجئے اس سے خوف کے حقیقی سبب کا پتہ چل جائےگا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ سبب معلوم ہو جانے کے بعد خوف کی قوت کم ہو جاتی ہے اور انسان نارمل زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ خوف صرف اسی لئے تنگ کرتے ہیں کہ ان کی اصل انسان کے لاشعور میں پنہاں ہوتی ہے اور وہ وہاں کا عملی طور پر مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اپنے آپ کو مختلف کاموں میں مصروف رکھنے کے علاوہ اپنا کچھ وقت دوستوں میں گزاریے اس کا ذہن پر عمدہ اثر پڑے گا۔ اور حادثات وغیرہ کا خوف دل سے نکل جائے گا۔ ایک دوسرے کی باتیںسننے سے غیر محفوظ ہونے کا احساس کم ہو جاتا ہے۔ یہ بھی یاد کرنے کی کوشش کیجئے یہ کیفیت سب سے پہلے کب اور کن حالات میں پیدا ہوئی تھی۔ نیز اپنے آپ کو کس قسم کے حادثے کا شکار پاتے ہیں۔ ان سوالات کا جواب نہ صرف مرض کی اصلیت تک پہنچنے میں مدد دے گا۔ بلکہ ایک طرح کا علاج بھی فراہم کرے گا۔
میں زندگی بھر تم سے رشتہ مانگنے نہ آﺅں گا
سوال:۔ میں ایک متوسط گھرانے کا فرد ہوںعرصہ دراز سے میری شادی کا معاملہ ایک اچھا خاصا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ جہاں میں چاہتا ہوںوہاں میرے گھر والے چاہنے کے باوجود وہاں نہیں کرسکتے۔ وہ میری پھوپھی کی لڑکی ہے۔ میرے والدین اسے پسند کرتے ہیں۔ مگر عرصہ ہوا میرے والد صاحب نے ایک بار میری پھوپھی سے کہا تھا کہ میں زندگی بھر تم سے رشتہ مانگنے نہ آﺅں گا۔ اس وقت شاید وہ لڑکی پیدا ہی نہ ہوئی تھی۔ اور میری عمر غالبا آٹھ نو سال کی تھی۔ مگر آج وہ بات دو زندگیوں کے درمیان رکاوٹ بن گئی ہے۔ فریقین چاہنے کے باوجود خواہش توہین سمجھتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ سول میرج کر لوں مگر اس صورت میں تعلقات ختم ہونے کا خوف ہے۔ اب میرے والدین میری شادی ایک ایسی لڑکی سے کرنا چاہتے ہیںجسے میں قطعی نا پسند کرتا ہوں۔ وہ جاہل اجڈ اوربد صورت ہے خدا کے لئے کچھ بتائیے میں بے موت مارا جا رہا ہوں۔ ( نسیم۔ پنڈی)
جواب:۔ محترم نسیم صاحب!عرصہ دراز سے میرے پاس اس قسم کے ہزاروں خطوط آرہے ہیںمگر میں خاموش رہا لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں کچھ کہہ دوں۔ میرے جواب سے مسئلہ حل ہو یا نہ ہومگر میں ان بزرگوں کو ضرور مخاطب کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے ہمیشہ نوجوان طبقے کو عشق محبت سے اجتناب برتنے کی ہدایت کی ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ اس قسم کے حالات برداشت نہیں کر سکتا مگر دکھ مجھے اس وقت ہوتا ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ بزرگ اولاد کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ ان کی زندگی کا مسئلہ حل کرتے وقت ان کی معمولی رائے ہی دریافت کر لیں۔ آج اولاد کی شادی کیلئے انتخاب کیا جاتا ہے تو اس بات کو سامنے نہیں رکھا جاتا کہ ہمیں لڑکے کی بیوی تلاش کرنا ہے۔ بلکہ ہم یہ سوچتے ہیںکہ ہمیں ایک بہو درکار ہے جو ساس اور سسر کی خدمت کر سکے۔ ہمارا احترام کرے اس میں بیوی بننے کی کیا صلاحیتیںہیں۔ ہم اس بات سے قطعی در گزر کر جاتے ہیں مجھے یاد ہے کہ اپنے عزیزوں کی شادی کے سلسلے میں پنجاب جانا پڑا دوران گفتگو لڑکی کی ہونے والی ساس نے کہا بیٹا ہمیں دھن دولت کچھ نہیں چاہئے ہم تو لڑکی کے ہڈ پیر دیکھتے ہیں۔ میں چونک سا گیامیں نے ان کی طرف دیکھا اور کہا جی ہاں ہم جب گائے بھینس خریدتے ہیں تو اس کے ہڈپیر ہی دیکھتے ہیں۔ اس پر ان محترمہ نے منہ پھلا لیا۔ رہی بات دھن دولت کی تو مجھے بعد میں علم ہوا کہ انہوں نے منہ مانگا جہیز حاصل کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی ازدواجی زندگی کو کیا محض ایک کھیل سمجھتے ہیں کیاہم لڑکی کا انتخاب کرتے وقت صرف تندرست جسم دیکھتے ہیں تاکہ وہ لونڈیوں کی طرح خدمات سر انجام دے سکے۔ جب ہم اپنی نئی پود پر اخلاقی پستی اوربے راہ روی کا الزام لگاتے ہیں تو ہم بھول جاتے ہیں کہ تاریخ کے اس دور میں نئی پود پر یہی الزام دھرا جاتا رہا ہے۔ ارسطو کو بھی یہی شکایت تھی کہ نئی پود میں اخلاقی قدروں کا احترام اور روایتی فرمانبرداری ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ہر نئی پود ذہنی اعتبار سے پہلی پود سے زیادہ ترقی پذیر ہوئی بزرگوں کو ہمیشہ ان سے شکایت رہی اور نئی پود اپنے بزرگوں کو دقیانوسی کہتی رہی۔ انسانی ارتقا کے اس مرحلے کو بزرگوں نے کبھی قبول نہ کیا اور آج بھی وہ قبول کرنا نہیں چاہتے آج بھی جب ان کے بنائے ہوئے تفریح طبع کے یہ نمونے ان کی نئی پود کو بغاوت پر آمادہ کرتے ہیں تو وہ چیخ اٹھتے ہیں کہ زمانہ کتنا برا ہو گیا ہے چھوٹے بڑوں کا کوئی احترام نہیں کرتے۔ مگر جب ہم یہ کہتے ہیںتو خود یہ بھول جاتے ہیں۔ کہ ہمارے پر دادا نے ہمارے دادا پر یہی الزام رکھا تھا ہمارے دادا نے ہمارے ابا محترم کو ناخلف کا خطاب دیا تھا۔ اور ہمارے ابا نے ہمیں ذہنی پستی اوربے راہ روی کا نمونہ سمجھا اور آج ہم بھی اپنی اولاد پر یہی الزام باندھ رہے ہیں۔ مگر کیا اس طرح یہ دانشوربزرگ ذہنی ارتقا کے خلاف بند باندھ سکے کیا یہ ارتقا رک گیا؟
آج سے بیس پچیس سال پہلے کے والدین کے سامنے بیوی شوہر سے گھونگھٹ کی اوٹ میں رہا کرتی تھی اور ہم ایسی اولاد کو بڑی سعادت مند کہا کرتے تھے لیکن آج کی اولاد ماں باپ کے سامنے بیوی کو ساتھ لے کر فلم دیکھنے جاتی ہے۔ ہر دور میں نئی پود کا یہی دستور رہا ہے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہ تبدیلی دوسری جنگ عظیم کے بعد اتنی شدت سے ظہور پذیر ہوئی کہ بزرگ حضرات بوکھلا اٹھے جس طرح جنگ عظیم کے بعد زندگی کے ہر شعبے میں زبردست ارتقا ہوا اسی طرح معاشی ارتقاءاور اخلاقی قدروں کی تبدیلی بھی ناگزیز تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس تبدیلی کو قبول کر کے اپنی نئی پود کو سنبھالنے کی سعی کریں۔ نہ کہ ان پر ذہنی پستی کا الزام لگا کر الگ ہو جائیں میں بزرگوں سے صرف یہی کہنا چاہتا ہوںکہ آج کے دور میں اپنے لئے بہو تلاش نہ کریں۔ بلکہ بیٹے کے لئے بیوی تلا ش کریںجو اس کی زندگی کا ساتھ دے سکے۔ اسے خوشیاں مہیا کر سکے مجھے یقین ہے کہ اگر ہم اپنی اولاد کو رائے دینے کا حق عطا کر دیں تو پھر عشق و محبت سے وہ خطرناک نتائج سامنے نہیں آئیں گے جو آج تک آ رہے ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 26
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں